⭕️ Obstacles and Obstacles in the Way of Imam Hussain (AS) and Protection of True Islam
👈 In the last two classes, the first part of a sermon of Imam Hussain (peace be upon him) was mentioned. The second part of the same sermon is being mentioned in today's class.
🔰 Imam Hussain (a.s.) further states in the second part of his sermon that:
👈 O people! Take a lesson from the admonition that Allah has given to His saints by reprimanding the Jewish scholars. Allah Ta'ala said: Why don't Jewish scholars and religious leaders stop them from sinful talk and forbidden eating? And he said: Those of the Children of Israel who disbelieved have been cursed and cursed. He even said: They did not forbid each other from doing bad deeds and how bad they used to do. In fact, Allah Ta'ala has declared them evil because, despite seeing with their own eyes that the oppressors were openly spreading evil, they did not try to stop the oppressors from doing so. Because they were interested in the riches they received from these tyrants and were afraid of the hardships they could inflict on them. Whereas God Almighty says: Do not fear people and fear Me. And the Lord has said: Believers and believing women are friends and guardians of each other, they enjoin good and forbid evil.
👈 While describing the qualities of the believers in this verse, Allah Ta'ala started with enjoining good deeds and forbidding evil deeds and made it obligatory on his part because God knows that if the commandments of good deeds and forbidding evil deeds are carried out and maintained in society. So all obligations, be they easy or difficult, will be performed automatically. And the reason for this is that ``Amarb al-Ma'ruf and Nahi an al-Munkar'' means to invite people to Islam and at the same time to return their rights to the oppressed, to oppose oppressors, and to distribute public wealth and booty under a just system. , and Sadaqah means zakat and other obligatory and mustahabb finances should be received from the right places and spent on the rightful ones.
👈 O the group that is famous for knowledge and grace, that is mentioned with goodness and goodness, you are famous for preaching and admonishing, and you are revered and glorified in the hearts of people because of being the people of Allah. Even the powerful is afraid of you and the weak respects you, even that person prefers you over himself over whom you have no superiority nor do you have power over him. When the questions of the needy are rejected, at that time your intercession is effective. Is.
👈 All this honor and respect is only because you are expected to issue divine orders, although your shortcomings in this regard are many. You have ignored the rights of the Ummah, wasted the rights of the weak and helpless members of the society and sat down after getting what you thought was your right. He did not make any financial sacrifice for it, nor did he risk his life for the sake of his creator, nor did he fight against any nation or tribe for the sake of Allah.
👈 Despite this, you wish to be with the Messenger of Allah (PBUH) in Paradise and to be safe from Allah's punishment, although I am afraid that Allah's punishment may not descend on you, because in the shadow of Allah's glory and majesty. You have reached this exalted position, while you yourself do not respect those who are famous for the knowledge of God, while you are looked upon with respect and reverence for the sake of God among the servants of God.
👈 You keep seeing that covenants made with Allah are being broken, yet you are not afraid, on the contrary, you shudder to see some of the covenants and covenants of your forefathers being broken, while the covenants and covenants of the Messenger of God They are being ignored and no care is being taken. The blind, the dumb and the crippled lie abandoned in the cities and no one takes pity on them. You guys are neither doing your part nor helping those who are doing something. You people have saved yourselves from the oppression of the oppressors through flattery and flattery, while God has forbidden it and asked each other to forbid it. And you are ignoring all these commandments.
👈 The calamity that befalls you people is a greater calamity than the calamity that befalls other people, because if you understand, you have been deprived of the high position and status of the scholars because the scholars are responsible for the management of the state. It should be entrusted to Allah, who is the trustee of Allah's halal and haram. And the reason for being deprived of this status is that you have strayed from the truth and are in disagreement about the Sunnah despite clear arguments.
👈 If you people were ready to suffer torture and endure hardships in the way of Allah, then the decrees of God would have been submitted to you for issuance, they would have been issued by you and you would have been consulted in matters, but you gave the tyrants and oppressors the opportunity to take away this position and status from you and to take control of the matters that are governed by the command of Allah, the matters in which the observance of the divine command is necessary, so that according to their assumptions and illusions. Make decisions and fulfill your own desires.
👈 They succeeded in taking over the government because you were running away from death and were caught in the love of this mortal and transitory world. Then yours
⭕️ قیام امام حسین علیہ السلام اور حقیقی اسلام کی حفاظت کی راہ میں موانع اور رکاوٹیں
👈 گذشتہ دو کلاسوں میں امام حسین علیہ السلام کے ایک خطبہ کے پہلے حصہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ آج کی کلاس میں اسی خطبہ کے دوسرے حصہ کا ذکر کیا جارہا ہے۔
🔰 امام حسین علیہ السلام اپنے خطبہ کے دوسرے حصہ میں مزید فرماتے ہیں کہ:
👈 اے لوگو! الله تعالیٰ نے یہودی علماء کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: یہودی علماء اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا: بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔ درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں، انہیں ظالموں کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں، ان ظالموں کی طرف سے ملنے والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے پہنچ سکنے والی سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔
👈 اس آیت کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگارجانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے، عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔
👈 اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے، یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔
👈 یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، معاشرے کے کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔
👈 اسکے باوجود آپ جنت میں رسول الله(ص) کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کی تمنا رکھتے ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
👈 آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو بھی منع کرنے کے لئے کہا ہے۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔
👈 آپ لوگوں پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ہے، اس لئے کہ اگر آپ سمجھیں تو علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کو محروم کر دیا گیا ہے کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔
👈 اگر آپ لوگ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی اجراء کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور معاملات میں آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔
👈 وہ لوگ حکومت پر قبضہ کرنے میں اس لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور نتیجہ یہ ہے کہ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔
👈 ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا، ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔
👈 تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے مقرر کردہ گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ آخر کار الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔
🔰 امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا: بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات حاضرین سے خطاب نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور نور نبوت کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔
🔰 امام حسین علیہ السلام کے خطبے کے مضمون کے بارے میں اہم نکات کو آئندہ کلاس میں بیان کیا جائے گا۔
🏴 KAREEMA FOUNDATION
Comments